“Learning the Quran is easy in 7 ways.” ” میں آج ہم پڑھیں گے ” اسماۓ اشارات ،۔ this &that,
“ذَا”عربی میں اشارہ کے لئے استعمال ہوتا ہے “ذا”معنی “یہ” اور اگر تنبیہ کرنی ہو شروع میں” ھَا”لگا دیں گے, “Learning the Quran is easy in 7 ways”. میں آج سمجھیں گے کہ اسم اشارہ کیا ہے ۔۔
ذَا = یہ (اشارہ قریب، عام طور پر صرف “یہ”)
ھٰذا = یہ (لیکن اس میں “ھَا” کی وجہ سے تنبیہ/توجہ بھی شامل ہو جاتی ہے)
“یعنی ھٰذا کے معنی ہوں گے: “یہ ہے”۔ “یہی ہے”
“دیکھو! یہ”
” Learning the Quran is easy in 7 ways “
۔اس میں پہلے ایسے۔فرق مختصراً یوں سمجھیں
ذَا = یہ (سادہ اشارہ)
هٰذا = یہ (اشارہ + توجہ دلانا، جیسے “سنو، یہ”)
“ذَا” عربی میں اشارہ قریب
(near demonstrative) کے لئے آتا ہے، یعنی “یہ”۔
جب اس کے شروع میں ھَا (حرفِ تنبیہ/توجہ) لگا دیا جائے تو یہ هٰذا بن جاتا ہے۔
ھَذا کا معنی: “یہ (مذکر چیز)
“ھَا” → متوجہ کرنے کے لیے: “سنو، دیکھو”
“ذَا” → اشارہ “یہ”
Learning the Quran is easy in 7 ways
لہٰذا ھَذا = یہ (قریب موجود مذکر چیز کے لئے)
مثال: هٰذا كتابٌ = یہ کتاب ہے۔
“ھَذا” = “یہ” (مذکر کے لیے قریب چیز کے لئے)
“Learning the Quran is easy in 7 ways”
جیسے الفاظ مذکورہ مؤنث ہوتے ہیں ایسے ہی عربی بھی چیزیں مذکر مؤنث ہوتی ہیں ، اس طرح “ذا”مذکر چیزوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
قرآن میں اسی لفظ “ذا”کے آگے کبھی “لِ” اور “ک “بھی آتا ہے ، جیسے “ذالک الکتاب”اس میں “ذا” کے بعد جو “لِ”آیا ہے یہ قریب کو دور کرنے کے لئے ہوتا ھے ، قرآن میں جگہ جگہ یہ “ذالک” کا لفظ آیا ہے ، اس میں کوئی حکمت ہوتی ہے ،
کہ ایک چیز ھے قریب لیکن اس کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے وہ بہت دور ہو، کیونکہ جس چیز کا مرتبہ اونچا ہوتا ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے بہت اونچی ہوتی ہے ، تو گویا اللّٰہ ہمیں بتا رھے ھیں کہ یہ تمہارے وہم و گمان سے بھی اونچی کتاب ہے،
اور “ذالک” کے آخر میں جو “ک” ھے یہ ضمیر نہیں ھے، جب خطاب ایک آدمی سے ہوتا ہے تو اسم اشارہ کے آخر میں “ک”لگا دیتے ہیں ، تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم جس سے بات کر رہے ہیں وہ ایک آدمی ھے ، یہ خطاب تو لاکھوں کروڑوں سے ھے
، لیکن جو بھی تلاوت کرے گا وہ سمجھے گا صرف مجھ سے بات ہو رہی ہے اللّٰہ کی ، اور اس طرح پھر وہ غور سے سنے گا ، قرآن میں ایسا ھے کہ جہاں بھی مرد اور عورت دونوں کا اکٹھا ذکر ھے تو وہاں صیغہ ہمیشہ مذکر کا استعمال کیا گیا ہے ،
“ذالک الکتاب “
“ذٰلِكَ” دراصل دو حصوں پر مشتمل ہے: “ذا” اور “لِک”۔ “ذا” قریب کے لیے اسمِ اشارہ ہے اور جب اس کے ساتھ “لام” لگایا جاتا ہے تو وہ قریب کو بعید یعنی دور میں بدل دیتا ہے۔
اس کے بعد آنے والا “ک” خطاب کے لیے ہے، یعنی جس سے بات کی جا رہی ہے۔ قرآن میں “ذٰلِكَ الْكِتَابُ” کہہ کر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے
کہ یہ کتاب اگرچہ تمہارے سامنے موجود ہے، لیکن حقیقت اور مرتبے کے اعتبار سے یہ تمہارے فہم و گمان سے بہت بلند و بالا ہے۔ گویا کہہ دیا گیا کہ تم جس کتاب کو اپنے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو وہ محض ایک عام کتاب نہیں، بلکہ ایک ایسی کتاب ہے جو تمہارے ادراک سے بھی کہیں بلند ہے۔.
“Learning the Quran is easy in 7 ways.”
اسی طرح “ک” کا اضافہ اس لیے ہے کہ قاری جب قرآن پڑھے تو وہ سمجھے کہ یہ خطاب براہِ راست اسی سے ہے۔ اگرچہ تلاوت کرنے والے لاکھوں کروڑوں ہوں، مگر ہر قاری کو یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ خاص طور پر اسی سے بات کر رہے ہیں۔
“Learning the Quran is easy in 7 ways” اسی حکمت کو واضح کرتا ہے کہ جب بندہ دل سے سوچے کہ یہ کلام خاص اسی کے لیے ہے، تو قرآن سیکھنے کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔
۔ یہی اثر سیکھنے اور سمجھنے کے عمل کو نہایت آسان بنا دیتا ہے۔
“Learning the Quran is easy in 7 ways” اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کو یاد کرنے، سمجھنے، تلاوت کرنے، غور و فکر کرنے، عمل کرنے، دوسروں کو سکھانے اور دعا کے ذریعے مدد لینے کے مراحل میں اللہ تعالیٰ ہر ایک کے لیے آسانی پیدا فرما دیتے ہیں۔
“یاد رکھنے کے لئے دہرائی کریں”
ایک اور لفظ ہے “ھَازانِ” “ذَانِ”دو کے لئے استعمال ہوتا ہے “ھَوُلاَءِ ” اُؤلٰئِکَ”۔ ان دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ، “ذَا “کا لفظ آتا ہے ایک چیز کے لئے ۔” ذَانِ” دو چیزوں کے لئے۔
“ھَوُلاَءِ ” یا “اُؤلٰئِکَ”بہت ساری چیزوں کے لئے ، اسی طرح”ھَذِہِ” ایک مؤنث کے لئے ۔
یہ مذکر کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔۔۔»»۔ ..ان سب کا معنی “”یہ “” ھے
ذَا۔ ./
ھَذا ۔ ۔/
ذالک ۔۔/۔
ذَلِکُمَا۔ ۔ /
ذَ لِکُمْ ۔ ۔/
جمع کے لئے ۔۔۔
ھَذَانِ۔ ۔ ۔ ۔۔ دو کے لئے
“ھَوُلاَءِ ” اُؤلَئِکَ”۔ ۔ ۔ ۔۔ جمع کے لئے ،
مؤنث کے لئے ۔۔۔۔
ھَذِہِ۔۔۔ تِلْکَ۔۔۔
یہ صیغے انسانوں کے لئے استعمال نہیں ہونگے ، انسان کے لیے “ھُوَ” استعمال ہوگا ، اس کا کوئی قاعدہ ، کلیہ نہیں ہے لیکن ھَذا اگر انسانوں کے لئے استعمال ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں توہین کا عنصر ہوتا ہے ،
“Conclusion”
فرق کی قرآنی مثالیں
. هٰذا (یہ)
قرآن میں بار بار آتا ہے، جیسے:
هَذَا الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ (یہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں – البقرہ: 2)۔
یہاں “هٰذا” محض اشارہ نہیں بلکہ توجہ بھی دلا رہا ہے کہ دیکھو! یہ وہی کتاب ہے جس میں شک نہیں۔
قرآن میں “ذَا” عام اشارے کے لیے ہے، جیسے صرف “یہ”، جبکہ “هٰذا” میں دعوتِ توجہ، تعارف اور زور کا پہلو ہے، جیسے “دیکھو! یہی ہے”۔
اسی لیے جب ہم قرآن پڑھتے ہیں، اس کا ترجمہ اور الفاظ کا فرق سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اگر ہم سادہ اصولوں کے ساتھ آگے بڑھیں۔
“Learning the Quran is easy in 7 ways” کے مطابق اگر ہم تھوڑا روزانہ وقت نکالیں، تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھیں، اور مثالوں کو ذہن میں رکھیں، تو مشکل الفاظ بھی بہت آسان لگنے لگتے ہیں۔
“Learning the Quran is easy in 7 ways”
Arabic grammar in Quran
difference between ذَا and هٰذا
easy Quran learning methods
understand Quran with examples۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ “learning the Quran is easy in 7 ways”
یا اللّٰہ ہماری غلطی کوتاہی معاف فرما اور درگزر فرما آمین یارب العالمین ۔
FAQs.
“Learning the Quran is Easy in 7 Ways”
1. روزانہ تھوڑا وقت نکالنا
چھوٹے حصے میں قرآن پڑھیں، مثلاً روزانہ 5 یا 10 آیات۔ یہ مسلسل عمل یادداشت کو مضبوط کرتا ہے۔
2. تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھنا
صرف عربی نہ پڑھیں بلکہ اس کا ترجمہ بھی ساتھ دیکھیں تاکہ معنی ذہن میں بیٹھ جائیں۔
3. تجوید کے اصول سیکھنا
صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے سے قرآن یاد کرنا اور سمجھنا دونوں آسان ہو جاتے ہیں۔
4. مثالوں کے ذریعے سیکھنا
قرآن میں استعمال ہونے والے الفاظ جیسے “هٰذا” اور “ذَا” کو مثالوں سے سمجھیں
5. سن کر یاد کرنا
قرآن کی آیات کو قاری کی تلاوت سے سنیں اور بار بار دہراتے رہیں۔
6. لکھ کر یاد کرنا
جو آیات مشکل لگیں انہیں لکھ لیں، یہ یادداشت میں زیادہ دیر تک محفوظ رہتی ہیں۔
7. عملی زندگی میں استعمال کرنا
قرآنی تعلیمات کو اپنی دعا، گفتگو اور اعمال میں شامل کریں،
learning the Quran is easy in 7 ways
Quran memorization tips
easy Quran learning methods
Arabic words in Quran explained
understand Quran deeply